انفیکشن / حساسیت/الرجی
روئی کے یہ گالے ہوا میں بکھر کر ریشوں کی صورت میں راہگیروں کے نظام تنفس اور
آنکھوں میں کھس جاتے ہیں،جس سے لوگوں کو زکام،سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن کا احساس ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق سفیدوں کے درختوں سے روئی کے گالے گرنے کا عمل سال میں دو بار ہو تا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ کشمیری سفیدے سے روئی کے گالے اس قدرنہیں برستے تھے اور نہ ہی انفکشن ہونے کی گنجائش رہتی تھی۔ لیکن ستر کی دہائی میں وادی میں روسی اور آسٹریلین سفیدے کومتعارف کرانے کے بعد یہاں موجودہ صورتحال وقوع پذیر ہوئی۔تبصرہ کر تے ہوئے کشمیر ایگریکلچریونیورسٹی کے پروفیسرڈاکٹر فیروز احمد شاہ کہتے ہیں ’’دراصل یہ روئی کے گالے زیادہ ترسفیدوں کے درختوں سے اُسوقت گرنا شروع ہو جاتے ہیں جب ان درختوں میں افزائش نسل کا عمل شروع ہوتا ہے‘‘۔انہوں نے کشمیر عظمیٰ کو مزید بتایا ’’ افزائش نسل کا یہ عمل ان سفیدوں کے درختوں میں موسم بہار کی ابتداء میں ماہ اپریل اور موسم ِخزا ںکے درمیانی مہینے میں ہو تاہے جسکے نتیجے میںان درختوں سے یہ روئی کے گالے برستے ہیں‘‘۔رابطہ کر نے پر معروف طبی صلاح کار اور کالم نویس ڈاکٹر نذیر مشتاق نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا’’ اس موسم میں سفید ے کے درختوں سے جو ’’روئی کے گالے ‘‘برستے رہتے ہیں ،و ہ بعض افراد میں شدید حساسیت پیدا کرسکتے ہیںاسلئے لوگوں کوباہر جاتے وقت ماسک کا استعمال کرنا چاہئے یا کم از کم رومال سے منھ اور ناک کو ڈھانپ لیں ‘‘۔ ان کا کہنا ہے ’’ جن لوگوں کو ان روئی گالوںسے آنکھوں میں جلن پیدا ہو تی ہو وہ چشمہ لگاکر چلنے کو ترجیح دیں‘‘۔ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر نذیر مشتاق کہتے ہیں ’’ سفیدہ سے برستے رہتے یہ روئی کے گالے بعض اوقات سانس کے ذریعے پھیپھڑوںمیں داخل ہوسکتے ہیں ،جس سے گلے اور پھیپھڑوںمیں انفکشن ہوسکتا ہے‘‘۔ان کے مطابق ابھی تک کسی بھی قسم کی حساسیت کا کوئی مکمل علاج نہیں ہے۔ ضد حساسیت دوائیوں سے صرف ناراحتی اور علائم میں نمایاں کمی محسوس کی جاسکتی ہے۔حساسیت کا پتہ لگانے کیلئے جو آزمائشات انجام دیئے جاتے ہیں وہ حد سے زیادہ مہنگے ہیں اور پھر ان کا کوئی دیرپا یا حتمی نتیجہ بھی نہیں نکلتااسلئے اکثر مریض ان آزمائشیات کو انجام دینے سے کتراتے ہیں اور معالجوں کی تجویز کردہ دوائیوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ حساسیت کا علاج صرف یہ ہے کہ ان چیزوں سے دور رہا جائے جن سے حساسیت پیدا ہونے کے امکانات ہوں یعنی حساسیت میں مبتلا مریض کو خود ہی اپنا معالج بننا پڑتاہے۔
No comments:
Post a Comment